Recent Posts

Saturday, September 12, 2015

My role play on islamic alternatives for home loans

Thursday, January 15, 2015

تہذیب جدید کے بنیادی معمار, حصہ دوم

سگمنڈ فرائڈ
       جدید مغربی تہذیب کے معماروں میں تیسرا اہم نام فرائڈ کا آتا ہے،جس کے مطابق نفس انسانی  اِڈ،اِگو اور سپر اِگو میں تقسیم ہےاور وہ ان کی تشریح اس طرح کرتا ہے کہ  اِڈ انسان کا ایک لاشعوری حصہ ہے  جس کا کام جنسی تسکین کے پرزور مطالبے کرنا اور انسان میں لذت اندوزی کی ہوس بھڑکانا ہے اس کے وجود کا ایک ہی مقصد اور وہ ہے فوری حصول لذت،لیکن چونکہ ہر وقت ہر حالت میں کواہشات کی تکمیل ممکن نہیں ہوتی اس لیے بقول  فرائڈ  کے اس وقت تک اس کی   اِگو کام کرتی ہے  اور اس کی  حصول لذت کی تمنا کو اس وقت تک کے لیے دبا دیتی ہے جب تک اس کے کرنے کا امکان نہ پیدا ہو جائے یعنی کہ اگواس کی اندرونی خواہشات کو بالکل ختم نہیں کر دیتی بلکہ وہ اڈ کی خواہشات کو اس وقت تک کے لیے دبائے اور چھپائے رکھتی ہے جب تک اس کی تکمیل کا موقع میسر نہ آجائےاور اس وقت تک وہ ان خواہشات کو خوابوں اور خیالوں میں پورا کرتی ہے  لیکن جیسے ہی خواہشات کی تکمیل کاموقع ملتا ہے (خواہ وہ جائز ونا کائز کسی بھی صورت میں ہو)وہ دیوانہ وار انسان کو اس پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دیدیتی ہے،فرائڈ کی اسی فکر کو پیش کرتے ہوے محمد قطب لکھتے ہیں کہ:۔
”فرائڈ انسانیت کو ایسے فرد کی صورت میں پیش کرتا ہے جو اپنی زندگی میں شہوانی طاقت((Libido کی منھ زوریو ں سے مجبور ہو کر  اپنی لذتوں کی تکمیل میں لگا رہتا ہے اگر اس کی خواہش کی تکمیل بروقت ہوتی رہے تو بہت خوب!ورنہ اس کی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ تمام رکاوٹیں دور کر کے تکمیل خواہش کا  کوئی طریقہ دریافت کرلے،وہ اس وقت بڑا خوش ہوتا ہے جب سماج کے پہرہ داروں سے بچ بچا کر کسی اخلاقی یا معاشرتی بندش کو توڑنے کا موقع فراہم ہو جاتا ہے اور وہ پھر بھی معاشرہ کی نظر میں پاکباز اور شبہ سے بالا تر رہتا ہے  حالانکہ  اس کے من میں وہ کچھ پنہا ہوتا ہے کہ اگرسوسائٹی اس سے واقف ہو جائے تو اسے سخت ترین سزادے“
گویا انسان کی  اڈ کا کام  خواہشات اور مطالبات کرنا ہے اور اگو کا کام ان خواہشات کی تکمیل کے مواقع فراہم کرنا ہے،
رہاسپر اگو تو گویا  وہ فرائڈ کی نگاہ میں ایک اخلاقی شعبہ ہے  کیونکہ انسان اپنے ذہن کے اس حصہ کی بدولت اپنے باپ اور اپنے معاشرے کو ایک آئڈیل بناتا ہے اور ان کی روک ٹوک سے اس میں یہ سمجھ پیدا ہوتی ہے کہ اپنی خواہشات کا کس جگہ استعمال کرنا ہے اور کس جگہ  نہیں ۔
لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اخلاق کی بندشیں فرائڈ کی نگاہ میں انسان کوایک دوہری شخصیت بنادیتی ہیں اور اس کے اندر کشمکش کا ایک طوفان بلاخیز موجیں مارنے لگتا ہے ،وہ اندر سے ایک اور باہر ایک ہو جاتا ہے کیونکہ مثلاً ایک طرف تو  بقو ل فرائڈ کےانسان کی اڈ نوزائدہ بچہ کو  اپنی ماں سے جنسی تعلقات بنانے پر ابھارتی ہے دوسری طرف یہ اخلاقیات ،باپ اور معاشرہ کا خوف اس کی آرزو کی تکمیل میں حائل ہوجاتے ہیں ،نتیجتاً معصوم بچہ بیک وقت اپنے باپ سے محبت ونفرت کی کشمکش میں مبتلا ہو جاتاہےاور بسا اوقت اسی وجہ سے وہ بہت سی نفسیاتی بیماریوں کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔
غرض یہ کہ لاشعور کے پردہ میں چھپی ہوئی اڈ کی یہ  جنسی خواہش ہی در اصل وہ نکتہ ہے جس کے ذریعہ فرائڈ ساری انسانی ذات کی تشریح کرتا حتی کہ مذہب تک فرائڈ کی نگاہ میں صرف اور صرف جنس ہی کی پیداوار ہےاس کا کہنا ہے کہ ابتداءزندگی میں کچھ لڑکوں  کواپنی ماں میں زبر دست جنسی کشش (Sexual appeal) محسوس ہوئی لیکن باپ کا خوف حصول لذت میں رکاوٹ تھا اس لیے انہوں نے تکمیل  خواہش کے لیے باپ ہی کو قتل کر دیا لیکن بعد میں جب انہیں اپنےاپنے کیے پر ندامت ہوئی اور احساس جرم ان پر غالب آیا تو کفارہ ادا کرنے کے لیے انہوں نے چند رسوم ورواج کی ابتدا کی اور آہستہ آہستہ وہ رسمیں بڑھتی گئیں  یہاں تک کہ ان کا نام مذہب رکھ دیا گیا۔
خلاصہ یہ ہیکہ زندگی کے ہر شعبے کو کسی نہ کسی انداز  میں فرائڈ نے جنس سے ہی جوڑا ہے بلکہ یوں کہ لیجیے فرائڈ  کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ڈارون کے انسان نما حیوان  میں لفظ”جنس“ کا اضافہ کر کے انسان کو ایک ایسا حیوان  بنادیا جس کی زندگی کی تمام راہیں  جنس پر ہی آکر ختم ہوتی ہیں چنانچہ فرئڈ کے اس نظریہ نے انسانی سماج کو حیوانی رنگ دینے میں  وہی کردار ادا کیا ڈارون کے نظریۂ ارتقاء کیا تھا، پروفیسر ولیم بیگ اپنی کتاب جدید سائنس اور ماہیت حیات میں  لکھتے ہیں:۔
 ”جب ہکسلے نے انسان کے مورث اعلی کے متعلق اپنے خیالات شائع کیے تو انسان کی مفروضہ تذلیل پر سو سال                 
تک     لوگوں کے منھ کھلے رہ گئے اور پاکبازی و اخلاق کے علم بردار چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ سائنس اپنی حدودسے تجاوز کر رہی ہےفرائڈ کے سائنسی نتائج کے اعلان پر بھی ایسا ہی واویلا ہوا،بایں ہمہ مرور زمانہ کے ساتھ ارتقاء        اور نفسیاتی تجربے کے نظریوں نے مقبولیت عامہ حاصل کی ۔حقیقت یہ ہے کہ اندونوں نظریوں نے تمام انسانوں کی     ثقافت مذہب  کلچر اور روز مرہ کے خیالات پر بے انداذہ اثر ڈالاہے“
لہذا مناسب ہوگا کہ ہم ایک نظر اس پر بھی ڈال لیں  کہ اس نظریہ نے معاشرہ پر کیا اثرات ڈالے،چنانچہ جیساکہ آپ جانتے ہیں مختف اسباب (جن کا پیچھے تذکرہ آیا)کی وجہ سے مغربی دنیا خصوصا اور ساری دنیا عمومامادہ پرستی کا دور دورہ  اور انسان  کو حیوان مان لینے کی وجہ سے حیوانوں جیسی لبرٹی اور آزادانہ جیسی بے راہ روی کی بنیاد پڑ چکی تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نوجوانوں کو باپ دادا کی مذہبی روایات اور خود انکا ضمیر کچوکے لگاتا تھا  ان کی اندرونی فطرت مرد وزن کے آزادانہ اختلاط کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی تھی لیکن جب ڈارون نے جنسی خواہشات اور اس کی آزادانہ تکمیل کو فطرت کی آواز کے طور پر متعارف کروایااور اس کو دبانے کو مختلف  نفسیاتی بیماریوں کا سبب بتلایا تو معاشرے سے وہ رہی سہی بندش بھی ختم ہو گئی جو سماج یا خود انکا اپنا ضمیر لگاتا تھااور اس طرح انسان پورے طور پر جانور کی صف میں کھڑا ہو گیا ،اس کے مقاصد زندگی بدل گئے،اس کی تہذیب میں حیوانیت در آئی
غرض یہ کہ چارلس ڈارون ، کارل مارکس ،سگمنڈفرائیڈجدیدمغربی  تہذیب کے بنیادی معمار کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان سب نے انسان کے  صرف مادی و جسمانی پہلو کو قابل توجہ سمجھا ہے اور ان کے افکار کو دنیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے، ان کے علاوہ بھی اہل یونان اور مغرب میں بہت سے مفکرین گذرے ہیں جنہوں نے انسان کا تعارف ایک حیوان ہی کی حیثیت سے کرایا ہے  چنانچہ امریکہ کے پہلے صدر بینجمن فرینکلن کے مطابق “A tool-making animal” کہ انسان ایک ہتھیار اورآلات بنانے  والا جانور ہے ، اسی طرح ایک اور مغربی مفکر کا کہنا ہے کہ  ”An animal that makes dogmas“ کہ انسان کی حیثیت اس دنیا میں قاعدے اور قوانین بنا نے والے جانور کی ہے،اور مشہور مغربی ناول نگار شیکسپیر کا خیال ہے کہ “This quintessence of dust” کہ انسانی شخصیت دھول کا لبِ لباب اور خلاصہ ہے۔
خلاصہ یہ کہ ایک بہت بڑی جماعت نےانسانی شخصیت کے صرف مادی وجسمانی پہلو کو توجہ دی ہے اور اس کے روحانی عنصر کو بالکلیہ  نظر انداز  کردیا ہے، اور دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی اگرچہ فکراً نہ سہی عملاًاسی طرز حیات کو اپنائے ہوئے ہے۔


Wednesday, January 7, 2015

تہذیب جدید کے بنیادی معمار حصہ اول

زندگی کا ہر شعبہ ،ہر طرح کے علوم و فنون ،ساری سماجیا ت،اخلاقیات،تہذیب وتمدن غرض سارا انسانی معاشرہ ،کس رخ پر جاتا  ہے ، اس کی اخلاقی قدریں کیا ہوتی ہیں ، اچھائی کیا ہوتی ہے؟ برائی کیا ہوتی ہے ؟ ایک مثالی ائیڈیل Perfect انسان کس کو کہاجا تا ہے ؟ ان سب سوالوں کا جواب صرف اس میں منحصر ہے کہ انسان کو کیا سمجھا گیا ، اور  کیا سمجھنا چاہیے،اگر کسی کی نگاہ میں انسان جانور ہے تو اس کے مقاصد زندگی اس شخص سے ضرورعلیحدہ ہونگے، جس کی نگاہ میں انسان خلیفۃ اللہ فی الارض ہے، یقیناً خاندان، سیاست ،معیشت، معاشرت،طب قانون   غرض زندگی کے ہر میدان میں چیزوں  کو دیکھنے،پرکھنے اور برتنے کے  نقطۂ نظر میں ان دونوں  افراد کے  درمیان آسمان و زمیں کا فرق ہو گا  ، موجودہ دور میں رائج تہذیب میں جو عام بربریت دکھائی دیتی ہے اس کی اصل بنیاد یہی ہے کہ انسان کو ایک جانور سمجھا گیا ہے ، اور مغرب کے کچھ مفکرین نے انسان کو جانور بنانے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے، جن کا تعارف ہم اس مضمون میں کرائیں گے۔

ڈارون
       دور حاضر کے  تصور انسان پر بات کرتے ہوئے اس حقیقت کو جاننا ضروری ہے کہ ڈارون کا نظریہ ارتقاءمادی دنیا کی تاریخ کا ٹرننگ پوئنٹ ہے کہ جس کے بعد عمومی اور اکثری طور پرروحانیت کی ضرورت  بلکہ گنجائش نہیں رہی کیونکہ ڈارون نے اس مسئلہ سے دنیا کو علمی طور پر متعارف کرایا تھا اور انسان جب کسی بات کو علمی طور پر فطری  سمجھ لیتا ہے تو اس تقاضوں  پر  بلا تکلف عمل بھی کرنے لگتا ہے،ڈارون سے پہلے جتنے لوگوں انسان کو جانور کی طرف منسوب کیا  اور انسان کو جانور کی نسل قرار دیا ،کسی نے بھی اس کی کوئی علمی دلیل نہیں دی،ڈارون وہ پہلا شخص ہے جس نے سائنس کے ذریعہ انسان کو جانور کی اولاد ثابت کیا،یہ الگ بات ہے کہ بعد میں چل کر  نظریۂ ارتقا اور اس کے دلائل پر جو اعتراضات ہوئے اور DNAاور جینز کی دریافت نے اگر چہ ان دلائل کے بودہ پن کو ظاہر کردی لیکن اس کے اثرات اور دور رس نتائج سے دنیا کو نہ بچایا جا سکا کیونکہ جب دلائل کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ انسا ن بندر اور بن مانوس کی ترقی یافتہ شکل ہےتو انسان میں روح  کے وجود کی بات تو بہت دور کی ہے انسان اور جانور کے اساسی مقاصد زندگی میں کوئی فرق نہیں کوئی فرق نہیں رہ گیا  کھانا ،پینا اور جنسی خواہشات کی تکمیل کرنا جس طرح جانوروں کا شیوۂ زندگی ہے انسانوں کابھی بن گیا ، اور اہم بات یہ ہے کہ یہ دعوی جن دلائل پر قائم ہے وہ بھی بجائے خود  انسانی تہذیب کوحیوانی تہذیب میں بدل ڈالنے کے لیے بہت کافی ہیں ،آپ خود دیکھئے کہ Struggle for Existence (جہد للبقاء)Survival of the fittest (بقاء اصلح) جیسے اصول انسانوں کو کیا دعوت دے رہے ہیں ؟ وہ کہ رہے ہیں کہ جس طرح حیوانی تہذیب میں صرف طاقتور ہی کو جینے کا حق ہے  اسی طرح انسانوں میں  طاقتور ہی کو ہونا چاہیے کیونکہ ڈارون کے ان مذکورہ بالا بے بنیاد دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ کروڑوں سال پہلے  دنیا میں مخلوقات کی کثرت اور خوراک کی قلت کی وجہ سے یہ ضروری تھا کہ زندگی گذارنے کے لیے سخت جدوجہد کی جائے اور طاقتور اپنی بھوک اپنے سے کمزور کو ہڑپ کر کے مٹائے،اورکمزور وناتوں کی اس کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا  تھاکہ زندگی صرف اسی کا حق بن گئی جس میں جینے کی صلاحیت ہو،رہا بیچارہ کمزور تو جلد یا بدیر اس کی  قسمت میں تو صرف ہلاکت تھی ، ایسا ہزاروں سال تک ہوتا رہا  اور آخر ایک انہی  باقی رہ جانے والے جانوروں سے ترقی کرکے انسان  وجود میں آگیا
اس نقطۂ نظر سے اگر ہم انسانی زندگی پر غور کریں  تو دور حاضر کی کشمکش حیات  میں نہ ڈاکو ڈاکہ ڈال کے برا ہے نہ ظالم ظلم کرکے برا ہے کیونکہ جینے کا حق تو صرف انہی ظالموں کے پاس ہے ،کمزور اور مظلوم کو یہ حق کیسے ہو سکتا ہے۔
کارل مارکس
          ڈارون  کے بعد کارل مارکس وہ شخص ہے جس کے نظریۂ حیات نے  اہل یورپ بلکہ ساری دنیا پرگہرے نقوش چھوڑے ، مارکس کی ساری فکر کاخلاصہ اگر ہم دو لفظوں میں کرنا چاہیں  تو بات صرف اتنی ہے کہ مارکس کی نگاہ میں انسان ایک معاشی حیوان ہے یعنی  انسان ایک ایسا  جانور ہے جس کی ساری زندگی اس کے پیٹ کے گردچکر کاٹتی  ہےاس کی نگاہ میں انسانی زندگی کی حقیقت یہ ہے سماج کا اصل مسئلہ طلب معاش ہے جس کا حل اس کی نگاہ میں اشتراکیت ہے چنانچہ اشتراکیت کی دعوت دینے کے لیے اس نے انسانی سماج کی ایک بالکل انوکھی تشریح کی ضرورت سمجھی کہ  ہر دور میں کوئی نہ کوئی رائج الوقت ذریعۂ معاش ہوتا ہےپھر مادی اسباب و وجوہ کی بنا پر ٍکوئی دوسرا ذریعۂ معاش اور تقسیم زر کی دوسری شکل وجود میں آجاتی ہےاور ان دونوں نظریہائے معاش میں ایک کشمکش اور طبقاتی نزاع شروع ہو جاتا ہے اور بالآخر اس کشمکش کے نتیجہ میں دونوں طریقوں کوملاکرطلب معاش کے کچھ نئے نظریات وجود میں آتے  اور رائج ہو جاتے ہیں ،یہی انسانی زندگی ہے اور اسی کے لیے ساری تگ و دو اور جنگ وجدال ہے،  رہامذہب اعلی اور اچھی اخلاقی قدریں یہ تو ہر زمانے کا انسان طلب معاش کے بہانے کے طور پر اختیار کر لیتا ہےلہذا ان چیزوں کی اس سے زیادہ کوئی وقعت نہیں کہ یہ انسان کے لیے ایک معاشی خدمت گار ہیں۔
کارل مارکس کا یہ طرز فکر بعینہ وہی ہے جو ہیگل نے پیش کیا  تھاسوائے اس کے کہ ہیگل کے یہاں اس طبقاتی نزاع کی اصل وجہ ایک خیال مطلق یا عقل کل تھی  جب کہ مارکس کے یہاں مادی اسباب ووجوہات اور طلب معاش کی جستجو اس کی وجہ ہے،مارکس خود کہتاہے کہ:۔
”میرا جدلیاتی طریقہ نہ صرف ہیگلی طریقے سے مختف ہے بلکہ اسکے براہ راست برعکس ہے ،ہیگل کے خیال میں غور وفکر کا زندہ عمل جسے وہ” خیال “کے نام سے آزاد فاعل میں تبدیل کر دیتا ہے حقیقی دنیا کا اصل خالق ہےاور حقیقی دنیا خیال کی صرف بیرونی مظہری شکل ہے۔اس کے برعکس میری رائے میں عین خیال مادہ کے سوا کچھ نہیں ،جس کا انعکاس انسانی ذہن میں ہوتا ہے اور جو فکر کی شکلیں اختیار کرتاہے “
مارکس نے ہیگلی فلسفہ کے روحانی پہلو کو رد کر دیالیکن وہ ساتھ ہی ساتھ ہیگل کے جدلیاتی اور معاشرہ کے طبقاتی نزاع والی فکر کو سراہتے ہوئے لکھتاہے کہ:۔
”ہیگل کے ہاتھوں جدلیات پر اسرار ضرور بن گئی لیکن اس نے اسے وہ پہلا مفکر ہونے سے نہیں روکا جس نے جدلیات کے عمل کی عام شکل کو جامع اور باشعور طور پر پیش کیا ہیگل کے یہاں جدلیات اپنے سر پر الٹی کھڑی ہےاگر کوئی پر اسرار خول کے اندر عقلی مغز دریافت کرلے تو اسے الٹ کر سیدھا کردے“
یعنی مارکس کو ہیگل کی جدلی فکر پسند  ہے اور اسی سے اس نے اپنی فکر نکالی ہے ،بس فرق یہ ہے کہ ہیگل کے  یہاں اس تنازع اور کشمکش کاسبب خیال مطلق ہے جبکہ مارکس کے یہاں یہ تنازع مادی اسباب اور طلب معاش کا نتیجہ ہے۔
اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نظریۂ ارتقاء کی طرح ہی مارکس کے اس نظریہ کے نتائج بڑے دور رس ثابت ہوئے  ہیں بلکہ حق تو یہ ہے کہ نظریۂ ارتقاء ہی دراصل مارکس کے اس فلسفے کے لیے روح رواں  ہے اور ہیگل کی اس روحانی جدلیت کو مادی جدلیت کی طرف پھیرنے کے لیے مارکس کو اسی نظریۂ ارتقاء سے مدد ملی ہے کیونکہ نظریۂ ارتقاء نے ہی پہلی مرتبہ انسان کو مکمل حیوان بنایا تھا ،مارکس  کا کارنامہ صرف یہ ہے کہ اس نے حیوان کے آگے” معاشی “کا اضافہ کرکےانسان کو ایک معاشی حیوان بنادیایہی وجہ ہے کہ مارکس Das capital(وہ کتاب جس میں اسنے اشتراکیت اور مادی جدلیت کا فلسفہ پیش کیا)کو ڈارون ہی کی طرف منسوب کرتا ہے اور اس کے جرمن ایڈیشن میں لکھتا ہے کہ” ایک مخلص مداح کی طرف سے چارلس ڈارون کے نام“۔
خلاصہ یہ کہ وہ جدید مغربی تہذیب جس نے انسان کو ایک مکمل حیوان کے طور پر پیش کیا ،کارل مارکس اس کے اہم معماروں میں سے ایک ہےجس نے انسان کو جانور کی طرح پیٹ کا بندہ بنایا ہے۔                                                                         (جاری)




Tuesday, January 6, 2015

ہدیہ سلام

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ